Orhan

Add To collaction

سنگ مر مر

سنگ مر مر
 از قلم اسامہ رحمن مانی 
قسط نمبر15

ایسے کب تک بیماری کا کہہ کر سب سے چھپاتی رہو گی نور....دو ہفتے ہو گئے ہیں...آہستہ آہستہ سب کو شک ہونے لگے گا...
زارا نے پریشان کن لہجے میں کہا...
تو پھر میں کیا کروں آپی...آپ ہی بتائیے نا... کیا یہ کہہ دوں کہ وہ گھر چھوڑ کر چلی گئی ہیں...
ایمان ایسا نہیں کر سکتی.... کبھی نہیں...زارا سر نفی میں ہلاتے ہوئے بولی...
یہی یقین تھا ہمیں بھی...ایک مان تھا... بھرم تھا....لیکن افسوس... سب کچھ ختم ہو گیا...نور آبدیدہ ہو گئی...
اگرچہ لگتا نہیں ہے لیکن مجھے یقین ہے سب پھر سے پہلے جیسا ہو جائے گا... میں دعا کروں گی... اسی نے کبھی سکھایا تھا مجھے دعا کا طریقہ...
___________________________
ایک مہینہ گزر گیا۔۔۔فیصل کو رہائی مل گئی۔۔۔
گھر میں داخل ہوتے ہی عظمی بیگم نے اسے گلے سے لگا لیا جیسے سالوں بعد گھر لوٹا ہو۔۔۔
شعیب مرزا بھی بہت خوش دکھائی دے رہے تھے۔۔۔
اس روز فیصل نے ایمان کو بہت کالز کیں مگر دوسری جانب سے کچھ جواب نہ آیا۔۔۔
ہو سکتا ہے مصروف ہو۔۔۔اس نے سوچا اور فون رکھ دیا۔۔۔
لیکن ڈیرھ مہینے کی بے قراری تھی۔۔۔اتنی آسانی سے کیسے ختم ہوتی۔۔۔ رات میں اس نے نور کے نمبر پر فون کیا۔۔۔
ہیلو۔۔۔ کیسی ہو نور۔۔۔
فیصل کی آواز سن کر نور کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔۔۔
فیصل بھائی۔۔۔ حیرت کے مارے اس کے منہ سے نکلا۔۔۔
ہاں کیوں کیا ہوا۔۔۔
ذرا یہ بتائیں کہ آپ کب واپس آئے۔۔۔
وہ کچھ اگلوانے کے سے انداز میں بولی۔۔۔
میں آج ہی گھر آیا ہوں۔۔۔ فیصل خاموش ہوا تو اس نے سنا نور رو رہی تھی۔۔۔اس کے کچھ بولنے سے پہلے ہی نور کی ہچکیاں بندھ گئی تھیں۔۔۔
کیا ہوا نور۔۔۔سب خیر تو ہے؟ 
ایمان آپی۔۔۔ وہ روتے ہوئے بس اتنا کہہ سکی۔۔۔
ہاں کیا ہوا ایمان کو۔۔۔پلیز مجھے بتاؤ۔۔۔میں کب سے اس کا فون ٹرائی کر رہا ہوں۔۔۔
فیصل کی یہ بات سن کر ایک لمحے کو تو نور کا سر چکرا گیا۔۔۔
پھر وہ روتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔
میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں۔۔۔پلیز میری بہن کو واپس لے آئیں۔۔۔میں سب کو منا لوں گی۔۔۔میں وعدہ کرتی ہوں۔۔۔
کہاں سے واپس لانا ہے؟ کہاں ہے وہ؟ فیصل کی پریشانی میں مزید اضافہ ہو رہا تھا۔۔۔
ادھر نور پر بھی حیرت کے پہاڑ ٹوٹ رہے تھے۔۔۔وہ دونوں ہی ایک دوسرے کی بات نہیں سمجھ پا رہے تھے۔۔۔
آپ کے پاس۔۔۔
میرے پاس۔۔۔؟ تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے نور؟ میں تو آج ہی باہر آیا ہوں۔۔۔فیصل جھنجھلا کر بولا
باہر ؟ کہاں سے ؟ 
لاک اپ میں تھا نا میں۔۔۔
لاک اپ میں؟ کب سے؟ 
جس دن تمہارے گھر آیا تھا۔۔۔ اس سے اگلے دن سے۔۔۔
کیا؟؟؟ تو کیا آپی آپ کے پاس نہیں ہیں؟ 
میرے پاس۔۔۔تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا نور؟ مجھے نہیں لگ رہی۔۔۔
میں ٹھیک ہوں لیکن اسی دن آپی بھی گھر سے چلی گئی تھیں۔۔۔
ایک چٹھی ملی تھی جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ وہ آپ کے ساتھ جا رہی ہیں۔۔۔اور تو اور۔۔۔ آپ ہی کہ نمبر سے میسج بھی آیا ہوا تھا کہ میں باہر کھڑا ہوں۔۔۔
یہ سن کر فیصل کا بھی دماغ گھوم گیا۔۔۔ لیکن وہ اپنے اوپر قابو رکھتے ہوئے بولا۔۔۔ یقیناً یہ کسی کی بہت گھمبیر سازش ہے نور۔۔۔لیکن ابھی تم کسی کے سامنے ذکر نہیں کرو گی۔۔۔ پہلے مجھے ایمان کو ڈھونڈنا ہو گا۔۔۔اس کے بعد اس شخص کو بھی دیکھ لیں گے جس نے یہ کیا ہے۔۔۔
___________________________
اگلے ہی دن فیصل ڈیڑھ ماہ بعد اماں خیر النساء کے گھر جا رہا تھا۔۔۔
اماں صدیقہ اسے دیکھ کر بے حد خوش ہوئیں۔۔۔ بیٹا آج تم کافی دن بعد آئے ہو۔۔۔ 
میں تو پریشان ہو گئی تھی۔۔۔سب خیر ہے نا؟
جی جی اماں وہ۔۔۔فیصل گڑبڑا گیا۔۔۔
کوئی مسئلہ ہے کیا۔۔۔؟ 
نن۔۔۔نہیں نہیں۔۔۔ایسا کچھ نہیں ہے۔۔۔لیکن میں آپ سے کچھ بھی چھپانا نہیں چاہتا۔۔۔
اصل میں مجھے ایک قتل کیس میں اندر کر لیا گیا تھا۔۔۔کل ہی رہا ہوا ہوں۔۔۔
ایک لمحے کی خاموشی کے بعد وہ دوبارہ بولا۔۔۔
در حقیقت میں جس لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔۔۔اس کے گھر رشتے کے لیے گیا تھا۔۔۔ لیکن اس کے کزن کی وجہ سے وہاں بد مزگی پیدا ہو گئی اور رشتہ نہ ہو سکا۔۔۔لیکن اس سے اگلے ہی دن میرے آفس میں میرے پستول سے ایک قتل ہوا جس کی وجہ سے مجھے جیل جانا پڑا۔۔۔لیکن اصل قاتل کا پتہ چل جانے کے بعد مجھے چھوڑ دیا گیا۔۔۔
تو کون تھا اصل قاتل۔۔۔
میرے ہوٹل کا واچ مین۔۔۔
وہ کسی کا قتل کیوں کرے گا۔۔۔اماں نے پوچھا
اس نے کسی کے کہنے پر یہ کیا ہے۔۔۔ اور جس کے کہنے پر یہ سب ہوا ہے۔۔۔وہ بھی اسی شہر کا ایک سیریل کِلر ہے۔۔۔
اوہ اچھا۔۔۔ چلو اچھا ہوا وہ پکڑا گیا۔۔۔
لیکن ابھی بھی ایک پرابلم ہے۔۔۔
وہ لڑکی گھر سے چلی گئی ہے۔۔۔ اس کو میرے نمبر سے میسج گیا تھا اور سب یہ سمجھ رہے ہیں کہ اسے میں کہیں لے گیا ہوں۔۔۔
لیکن مجھے خود بھی معلوم نہیں کہ وہ کہاں ہے۔۔۔
یعنی تمہارے قتل کیس کا تعلق اس لڑکی سے بھی ہے۔۔۔
فیصل نے ایک جھٹکے سے سر اٹھا کر اماں کو دیکھا۔۔۔
بالکل۔۔۔مجھے بھی ایسا لگ رہا ہے۔۔۔
اوہ۔۔۔اللہ سے دعا کرو۔۔۔مدد مانگو۔۔۔ وہ ان کی مدد کرتا ہے جو حق پر ہوں۔۔۔
اللہ سے؟۔۔۔اس لڑکی کی وجہ سے میں نے نماز پڑھنا بھی شروع کی تھی۔۔۔میں اللہ سے دعا بھی کرنے لگا تھا۔۔۔
لیکن جب میں یہ سب نہیں کرتا تھا تب تو سب کچھ ٹھیک تھا۔۔۔جیسے ہی میں نے اس کا طرز زندگی اپنایا میری زندگی میں مشکلات آ گئیں۔۔۔کیا ملا مجھے اس عبادت سے اور اس ایمان سے اماں؟ 
اماں مسکرا دیں۔۔۔ تم نے رب کو دھوکا دیا ہے بیٹا۔۔۔ 
کیا؟؟؟ اماں یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں۔۔۔فیصل زور سے بولا۔۔۔
ہاں بیٹا۔۔۔تم نے اس رب کی آڑ میں ایک لڑکی کی عبادت کی ہے۔۔۔ اس وقت تمہاری ترجیح وہ لڑکی ہے۔۔۔ورنہ تم اس کے بچھڑنے پر یہ نہ کہتے کہ مجھے عبادت سے کیا ملا۔۔۔
بلکہ تم یہ کہتے کہ مجھے اللہ مل گیا۔۔۔لیکن تمہیں تو رب ملا ہی نہیں۔۔۔کیوں کہ تمہاری ترجیح تو وہ لڑکی تھی۔۔۔رب کیسے ملتا۔۔۔
فیصل حیران پریشان اماں کی باتیں سن رہا تھا۔۔۔
اماں بات یہ نہیں ہے۔۔۔در اصل مجھے یہ پریشانی ہے کہ وہ کہاں گئی۔۔۔
ہاں تو اس کے لیے ہی رب سے مدد مانگنے کا کہا ہے نا میں نے۔۔۔
ان ذرا سی مشکلات کے آنے سے ہی تم رب سے نالاں ہو گئے؟ شکوہ کناں ہو گئے۔۔۔؟ وہ تو آزماتا ہے اپنے پیاروں کو۔۔۔کبھی تکلیف دے کر۔۔۔کبھی کسی مشکل سے دو چار کر کے۔۔۔
اماں نے دیکھا فیصل کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔۔۔
جاؤ بیٹا۔۔۔وہ لڑکی تمہیں ضرور ملے گی۔۔۔یہ میرا یقین ہے۔۔۔لیکن اس بار رب نہ کھو دینا میرے بیٹا۔۔۔میں نے تو پہلے بھی تمہیں بتایا تھا کہ اگر محبت حد سے زیادہ ہو جائے تو خدا مل جاتا ہے یا پھر خدا کھو جاتا ہے۔۔۔آج ایک مرتبہ خلوص دل سے رب کے پاس جاؤ۔۔۔پہلے اسے مناؤ اور پھر اپنی بات منواؤ۔۔۔اس کے بعد میرے پاس آنا۔۔۔جاؤ میرے بیٹے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی جب سلگنے لگے
تنہائیوں میں الجھنے لگے
سسکنے لگے اور تڑپنے لگے
بہکنے لگے اور بھٹکنے لگے
موت بن جائے آنکھوں میں چبھنے لگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ایک سجدہ کرو رب کے آگے وہیں"...
وہ وہیں رب کے حضور سجدہ ریز ہو گیا۔۔۔
نم آنکھوں کے ساتھ وہ اماں سے اجازت لے کر ایمان کی تلاش میں چل نکلا۔۔۔اب اسے اماں کے کہے کے مطابق ایمان کو لے کر ہی واپس آنا تھا۔۔۔

   1
0 Comments